صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے روسی ساخت کے 34 لڑاکا طیاروں اور 21 لڑاکا ہیلی کاپٹروں کو شام کی جنگ میں جھونکے جانے کے بعد یہ بات صاف ظاہر ہو گئی ہے کہ روسی صدر نے اپنی عسکری طاقت بڑھانے پر جو اربوں ڈالر خرچ کیے تھے وہ کام آ رہے ہیں۔ شام پہنچنے کے چند دنوں کے اندر اندر ہی ان طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے اپنا کام شروع کر دیا اور اب تک یہ طیارے اور ہیلی کاپٹر صدر اسد کے دشمنوں کے خلاف کم از کم ایک ہزار کارروائیاں کر چکے ہیں۔
صدر پوتن دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ شام میں دہشگردی کے خلاف جاری جنگ میں ان کی فوج وہ ولولہ لا سکتی ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادی نہیں لا پائے۔
شام میں روس کی براہ راست مداخلت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جہاں امریکی اتحاد میں کام کرنے والی فضائیہ گذشتہ ایک سال میں اوسطاً یومیہ چھ کارروائیاں کر رہی تھی، وہاں روس نے اپنے فضائی حملوں کی ابتدا یومیہ آٹھ حملوں سے کی اور اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب صرف ایک دن میں اس نے 49 فضائی حملے بھی کیے۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ روس کا ایک فضائی اڈّہ دہشگردوں کے ٹھکانوں کے بہت قریب ہے جہاں سے اس کے طیارے محض دس منٹ کی پرواز کے بعد باغیوں کے ٹھکانوں کو دن میں دو تین مرتبہ نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں امریکی لڑاکا طیاروں کو خلیجی ریاستوں سے پرواز کر کے آنا پڑتا تھا اور انھیں راستے میں دوبارہ اایندھن بھرنے کے لیے بھی کئی مرتبہ رکنا پڑتا تھا۔ اتنے طویل سفر کی وجہ سے امریکی اتحاد میں کارروائیاں کرنے والے طیارے ہفتے میں دو یا تین سے زیادہ حملے نہیں کر پاتے تھے۔
اس کے علاوہ کئی محاذوں پر شامی افواج کے ساتھ روسی عکسری مشیروں کی موجودگی کے بعد اب روسی فضائیہ کو اپنے اہداف کی بھی کوئی کمی نہیں رہی کیونکہ شام کی سرزمین پر روس کے پاس وہ آنکھیں اور کان موجود ہیں جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس نہیں ہیں۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ روس نے گزشتہ ایک ماہ میں شام میں جو تباہی پھیلائی ہے اس کا حاصل کیا ہے؟
جہاں تک امریکی سرکاری تجزیہ کاروں اور صحافیوں کا تعلق ہے تو وہ ایک ہی خیال کے حامی ہیں۔ مثلاً ’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے‘ (بیلنگ کیٹ) نامی تحقیقی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ روسی طیاروں نے اب تک جو بم گرائے ہیں ان میں 90 فیصد بم ان مقامات پر گرائے گئے ہیں جو نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے بجائے دوسرے گروہوں کے ٹھکانے تھے۔ اس ویب سائٹ کا دعوی ہے کہ روسی وزارتِ دفاع نے اپنے فضائی حملوں کی جو 60 ویڈیوز جاری کی ہیں ان میں سے صرف ایک ویڈیو اس علاقے سے ہے جو دولتِ اسلامیہ کا ٹھکانہ ہے۔
ان حملوں کے بارے میں روسی حکام کے اپنے بیانات میں بھی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ گزشتہ ہفتے صدر پوتن بھی ’اعتدال پسند اور غیر اعتدال پسند‘ دہشتگردوں کے درمیان فرق کو ’محض لفظوں کا ھیر پھیر‘ قرار دے چکے ہیں۔
دوسری جانب روسی وزیر خارجہ بھی ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں شام میں قیام امن کے لیے ہونے والے مذاکرات میں ’فری سیریئن آرمی‘ کے گروہوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے، حالانکہ خود روسی طیارے فری سیریئن آرمی کو بھی نشانہ بنا چکے ہیں۔
روسی فضائی حملوں کا نشانہ بننے والے ٹھکانوں کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر حملے ان مقامات پر کیے گئے ہیں جو شامی فوج کے ہاتھ سے نکل گئے تھے اور وہ وہاں اپنا کنٹرول بحال کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہی ٹھکانے ہیں جہاں شامی فوج گزشتہ دو ہفتوں سے زمینی کارروائیاں کر رہی ہے۔
ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جب سے روسی فضائیہ نے شامی فوجوں کی مدد کرنا شروع کی ہے، اس کا زیادہ تر مقصد شامی فوجوں کو زمینی حملے کرنے میں سہولت فراہم کرنا رہا ہے، یعنی فضا سے بمباری کر کے شامی فوجوں کے لیے راستہ بنانا۔
یہ بات اتنی اہم نہیں کہ کن دہشتگردوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، بلکہ روسی فضائی حملوں کا مقصد اصل میں ان گروہوں کو پیچھے دھکیلنا ہے جو خطرناک حد تک ان علاقوں کے قریب پہنچ گئے تھے جو شامی حکومت کے مضبوط ٹھکانے سمجھے جاتے ہیں۔
اگر روس اپنے اہداف کا انتخاب اسی بنیاد پر کر رہا ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا روس کا نشانہ درست جگہ لگ رہا ہے یا نہیں؟
جہاں تک امریکہ اور اس کی اتحادیوں کے میزائیلوں کا تعلق ہے تو انھیں صحیح ہدف تک پہنچانے میں اکثر لیزر ٹیکنالوجی یا سیٹلائٹ سے مدد لی جاتی ہے، لیکن جو حملے روس کر رہا ہے ان میں سے چند ہی ایسے ہوتے ہیں جن میں ایسی سہولت موجود ہوتی ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع ایشٹن کارٹر کا کہنا تھا کہ 80 فیصد سے زیادہ روسی بم ایسے ہیں جو درست نشانے پر لگنے کی (گائیڈِڈ) سہولت سے محروم تھے، یعنی یہ ’اندھے‘ بم تھے۔ امریکی وزیرِ دفاع کا یہ اندازہ ان آزاد ذرائع کے جائزوں سے مطابقت رکھتا ہے جنھوں نے روسی کاررائیوں کی ویڈیوز کا جائزہ لیا ہے۔
عام طور امریکی ساخت کو درست نشانے پر بیٹھنے والا ’پرسیژن‘ بم اپنے ہدف سے زیادہ سے زیادہ آٹھ تا بارہ میٹر پرے گر سکتا ہے، لیکن اگر بم ’گائیڈِڈ‘ نہ ہو تو یہ فاصلہ 50 سے ایک سو میٹر تک جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ان حملوں میں روسی دور دور تک بکھر جانے والے ایسے (کلسٹر) بم بھی استعمال کرتے رہے ہیں جنھیں مغربی ممالک اس وجہ سے رد کر دیتے ہیں کہ ایسے بموں کے اثرات ہدف سے دور تک پھیل سکتے ہیں۔
اس کے باجود کہ امریکہ اور اس کے اتحادی محض گائیڈِڈ بم استعمال کرتے رہے ہیں، امریکی قیادت میں کی جانے والی کارروائیوں میں عراق اور شام میں کم از کم 600 ایسے افراد مارے جا چکے ہیں جو غیرمسلح تھے اور کسی لڑائی میں شامل نہیں تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ روس اپنے حملوں میں ایسے ہتھیار استعمال کر رہا ہے جو درست ہدف تک پہنچنے میں غلطی کر سکتے ہیں اس لیے اس بات کے امکانات بہت زیادہ ہیں کہ ان حملوں میں عام شہری زیادہ تعداد میں مارے جا رہے ہیں۔
روسی فضائی حملوں کے بارے میں حلب کے قریب تعینات ’فری سیریئن آرمی‘ کے علاقائی کمانڈر کرنل عبدالجبار الاکیدی کا کہنا تھا کہ ’شکر ہے کہ روسی بم نشانے پر نہیں لگتے۔ یہ بات ہمارے فائدے میں جاتی ہے۔‘
شام میں لڑنے والے باغی گروہوں اور غیر سرکاری تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ اب تک روسی کارروائیوں میں سینکڑوں عام شہری مارے جا چکے ہیں اور سات ہسپتال بھی نشانہ بم چکے ہیں۔
اس کے جواب میں روس کا دعوی ہے کہ ان کے حملوں میں کوئی عام شہری ہلاک نہیں ہوا ہے اور اس بات میں کوئی سچ نہیں ہے کہ ان کی طیارے درست مقامات کو نشانہ نہیں بنا رہے۔
تاہم روسی عسکری امور کے تجزیہ کار کرنل میخائل تیموشِنکو اعتراف کرتے ہیں کہ آئے روز ان کی کارروائیاں پیچیدہ اور مشکل ہوتی جا رہی ہیں۔
لیکن لگتا ہے کہ درست نشانے پر نہ لگنے کے باوجود روسی طیارے اور ہیلی کاپہٹر اتنی زیادہ کارروائیاں کر رہے ہیں کہ ان حملوں میں دہشتگردوں اور باغیوں کو امریکی کاررائیوں کی نسبت بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔
شام میں حملوں سے تھوڑی دیر پہلے صدر پوتن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا ’شام کے بحران کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں کہ شامی حکومت کو موثر اور مضبوط بنایا جایا۔‘ جب صدر پوتن سے جب پوچھا گیا کہ وہ دراصل صدر اسد کو بچانا چاہتے ہیں تو مسٹر پوتن نے اس سے انکار نہیں کیا تھا۔
ایک ماہ گزرنے کے بعد اگر دیکھا جائے تو روس شام میں یہی کر رہا ہے، یعنی وہ بشارالاسد اور شامی افواج کو مضبوط کر رہا ہے۔
لیکن شام میں جاری کارروائیوں کی جو قیمت عام لوگ ادا کر رہے ہیں اس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
روس کی مداخلت نے واقعی شام میں جاری کاررائیوں میں ایک نیا ولولہ پھونک دیا ہے، لیکن اس مسئلے کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔