برسوں پہلے مغربی بنگال کے نام ور پولس افسر اور معروف اردو شاعر عین رشید نے استاد بسم اللہ خاں پر ایک دستاویزی فلم بنائی تھی۔ اس فلم میں خاں صاحب کے ساتھ ساتھ ان کے شہر بنارس کی حیثیت بھی مرکزی تھی۔ خان صاحب آج بھی اسی شہر کی ایک گلی میں رہتے ہیں۔
اک سنگ تراش جس نے برسوں
ہیروں کی طرح صنم تراشے
آج اپنے صنم کدے میں تنہا
مجبور، نڈھال، زخم خوردہ
دن رات پڑا کراہتا ہے
(احمد فراز)
خان صاحب جو ایک بھرے پرے گھر اور خاندان کے ساتھ رہتے ہیں ان دنوں بیمار ہیں، بے بس ہیں اور بے سہارا ہیں۔ زندگی کے اس موڑ پر جب انہیں اپنی ثقافتی و فنی خدمات اور کمالات پر مطمئن، آسودہ اور شاد کام ہونا چاہیے تھا، انہیں فکرِ معاش نے گھیر رکھا ہے۔ انہیں جب بھارت رتن کا اعزاز دیا گیا تو پہلی بات جو ان کے ذہن میں آئی، یہ تھی کہ اس اعزاز کے ساتھ انہیں کچھ اقتصادی امداد بھی ملے گی یا نہیں۔
خان صاحب نے شہنائی جیسے ساز کو شادی بیاہ کے روایتی منڈپ سے نکال کر موسیقی کی دنیا میں غیر معمولی اعتبار اور امتیاز کے مرتبے تک پہنچایا۔ وہ اس انڈو مسلم تہذیبی روایت کے سب سے بڑے ترجمانوں میں ہیں، جس نے حضرت امیر خسرو سے لے کر آج تک ایک شان دار ثقافتی سلسلے کو قائم رکھا ہے۔ پیرانہ سالی کے باوجود آنکھوں میں بچوں کی جیسی نرمی اور شوخی، باتوں میں بلا کا بھولا پن، صوم و صلوٰة کے پابند، اسی کے ساتھ ساتھ موسیقی میں عبادت جیسا انہماک۔
ایک دنیا ان کے فن پر سر دھنتی ہے۔ ان کے قدر داں مشرق و مغرب کے کئی ملکوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ کئی مرتبہ انہیں بڑی بڑی مراعات کی پیش کش ہوئی، وہ چاہتے تو کہیں بھی جا کر بس جاتے اور سکھ چین سے بسر کرتے، مگر خاں صاحب کی شخصیت میں درویشی اور سادگی کے اوصاف کے علاوہ اپنے وطن سے محبت کا جذبہ بھی اتنا شدید ہے کہ وہ کہیں جانے پر رضا مند نہیں ہوئے۔ لوگوں نے بہت اصرار کیا تو خان صاحب نے کہا ٹھیک ہے، ہم چلے چلیں گے بشرطیکہ اس شہر کی گنگا جمنی تہذیب اور گنگا کا کنارہ بھی ساتھ چلے جس نے دنیا بھر میں صبحِ بنارس کا چراغ جلا رکھا ہے۔
(عالمی شہرت یافتہ شہنائی نواز استاد بسم اللہ خاں کے حالاتِ زندگی پر بھارت کے نام ور نقّاد اور ادیب شمیم حنفی کے ایک کالم سے اقتباس)