ٹوکیو( آن لائن )جاپان میں حکومت کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ 20 فی صد ملازمین کو کام کے بوجھ سے موت کا خطرہ ہے۔خیال رہے کہ جاپان حد سے زیادہ محنت کے کلچر کے لیے بدنام رہا ہے۔جاپان میں حد سے زیادہ کام کرنے کے تعلق سے ہر سال سینکڑوں اموات ہوتی ہیں جن میں دل کا دورہ اور خودکشی کے علاوہ دگر بہت سے صحت کے مسائل شامل ہیں اور اس کے سبب قانونی چارہ جوئی کے واقعات اور اس مسئلے کے حل کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے۔
’کاروشی‘ یعنی کام کے بوجھ سے ہونے والی اموات کے معاملے یہ پہلا قومی سروے ہے اور جمعے کو وزیر اعظم شنزو ابے کی کابینہ نے اس کی تصدیق کی ہے۔اگرچہ جاپان کے تنخواہ پانے والے ملازمین کے حالات بدل رہے ہیں تاہم وہ دوسری جدید معیشت والے ممالک کے مقابلے ابھی بھی زیادہ وقت دفتر میں گزارتے ہیں۔پہلے ان کی یہ شبیہ تھی کہ وہ دیر تک کمپنی کا کام کرتے اور آخری ٹرین سے گھر واپس لوٹتے۔سروے کے مطابق گذشتہ سال دسمبر اور رواں سال جنوری کے درمیان جن کمپنیوں میں سروے کیا گیا ان میں سے 7۔22 فی صد کمپنیوں میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کے بعض ملازمین مہینے 80 گھنٹے سے بھی زیادہ اوور ٹائم کام کیا ہے۔ یہ وہ سرکاری حد ہے جس کے بعد کام کی وجہ سے موت کے سنگین حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تقریبا 3۔21 فی صد افراد ہر ہفتے اوسطا 49 گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں اور یہ اوسط امریکہ کے 4۔16 فی صد، برطانیہ کے 5۔12 فی صد اور فرانس کے 4۔10 فی صد سے بہت زیادہ ہے۔سروے میں یہ بھی بات سامنے آئی کہ جاپان کے تنخواہ دار ملازمین پر کام کا سخت دباؤ رہتا ہے۔ سروے میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ کمپنیوں پر کام کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے زور دیا جائے۔