تحریر: محمد عمران رستم سیفی
میں کئی مہینوں سے گوادر میں مقیم ہوں ۔لاہور اور کراچی کی رنگا رنگی کا اپنا مقام ہے لیکن گوادر سے پاکستان کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنا ملک دنیا کے تاج میں نگینے کی چمکتا دکھائی دیتا ہے اور ہر روز میں اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے پاکستان کو گوادر سمیت ایسے خزانوں سے مالا مال کیا ہے مگر ہماری قوم کو اسکا شعور نہیں ہے کہ پاکستان کی چیز ہے؟
پاکستان ایک معجزہ ہے اور اسکا انکار کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنی نااہلیوں کا قصور وار اس ملک کو قرار دیتے ہیں۔پاکستان کے معجزہ ہونے کی تشریح میں جائیں تو پتہ لگتا ہے کہ دنیا کی ساڑھے سات ارب آبادی میں سے 3 ارب آبادی کو پاکستان سے فائدہ پہنچے گا اور یہ فائدہ صرف ایک سڑک، اقتصادی راہداری کی وجہ سے ہوگا۔ اندازہ کیجئے اگر پاکستان کی ایک سڑک دنیا کی 3 ارب آبادی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے تو پورا پاکستان کتنا فائدہ پہنچاسکتا ہے دنیاکو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔..؟؟؟؟
ذرا سوچیں کہ پاکستان وہ ملک ہے جس کے صرف ایک چھوٹے سے علاقہ شوال سے دھشت گرد اربوں روپے کما کر دھشت گردی میں استعمال کر رہے تھے۔اگر اہل قیادت ہوتی تو چلغوزے کے کاروبار سے ملنے والے وہ اربوں روپے ملکی ترقی کے لئے استعمال کرتی۔
کہاں ایک سڑک اور دنیا کے تین ارب افراد کو فائدہ۔
کہاں ایک چھوٹا علاقہ شوال اور اربوں روپے کی آمدن سے بربادی۔
اب آپ کو گوادر کی کرامات سناتے ہیں۔
دنیا میں اور بھی کافی بندرگاہیں ہیں اور اپنے اپنے حساب سے کافی مؤثر انداز میں آپریشنل بھی ہیں مگر انگریزی لفظ ٹی (T) کی شکل میں بنی یہ قدرتی بندرگاہسب سے نرالی ہے۔میں نے دنیا کی دس مصروف ترین بندرگاہوں کو گوگل کر کے دیکھا اور ان کی شکلیں دیکھ کرہنس دیا۔شکل سے مراد جغرافیائی محلِ وقوع ہے۔گوادر کو اپنی ہیت کے اعتبار سے دوسری بندرگاہوں پر امتیازی حیثیت حاصل ہے۔جس دن گوادر بندرگاہ مکمل آپریشنل ہو گئی یہ دنیا کی مصروف ترین بندرگاہوں میں سے پہلے نمبر پر ہو گی ۔جغرافیائی اعتبار سے دنیا میں 2 آبنائے سب سے اہم قرار دیے جاتے ہیں۔ ایک آبنائے ملاکا ایک آبنائے ہرمز۔گوادر کو اللہ نے وہ محلِ وقوع عطا کیا ہے کہ یہ دونوں کی اہمیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ٹیکنیکل نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو گوادر وہ مقام ہے جو چاہے تو آبنائے ملاکا کی خلیج فارس والی سپلائی لائن کاٹ دے۔چاہے تو آبنائے ہرمز سمیت خلیج فارس کا منہ توڑ دے۔
یہ جغرافیائی محلِ وقوع دنیا بھر کی 4764 بندرگاہوں میں سے جداگانہ ہے ۔1947 میں یا اس سے قبل کسی کو نہیں پتہ تھا کہ یہ اتنی اہم ہو گی۔ویسے صدر ایوب کے وژن کو بھی سلام جنہوں نے 1958 میں ہی یہ بات محسوس کر لی تھی اور گوادر کو عمان سے خرید کر پاکستان میں شامل کر لیاتھا۔
بلوچستان سونے کی کان ہے۔جی ہاں کالے سونے کا دنیا بھر میں دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہمارے بلوچستان میں ہے۔کالا سونا یعنی کوئلہ۔۔۔شکر ہے کہ اللہ نے ابھی تک اسے خائن حکمرانوں کی پہنچ سے دور رکھا ہے۔اس کے علاوہ معدنیات اور دیگر قدرتی ذخائر سے بلوچستان بھرا پڑا ہے۔
پاکستان کا کھیوڑا دیکھ لیں۔
پاکستان کے معجزہ ہونے کی بڑی دلیلوں میں سے ایک دلیل کھیوڑہ بھی ہے۔لگ بھگ 80 ارب سال پہلے یہاں اتھلا سمندر ہوا کرتا تھا۔ یعنی کم گہرا اور کم چوڑا سمندر۔زمینی حالات میں موسمیاتی تبدیلیوں کی بنا پر وہ سمندر یوں ہی کروڑوں سال قبل بھاپ بن کر اڑ گیا اوراپنے پیچھے نمک چھوڑ گیا۔اربوں سال پہلے تقدیر نے اسکو پاکستان کے لئے وقف کردیا تھا۔یہمعجزہ نہیں تو کیاہے؟؟؟؟؟
نمک کی یہ کان سکندرِ اعظم کے گھوڑوں نے یہاں کی زمین چاٹ کر دریافت کی تھی۔تب سے اب تک یعنی مسلسل 2400 سال زائد سے دنیا کے لوگ یہاں کا نمک استعمال کر رہے ہیں اور اگلے 350 سال تک نمک اسی طرح نکلتا رہے گا۔
ایک سال میں اوسط نکلنے والے نمک کی مقدار 4 لاکھ ٹن ہے جو مسلسل بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں اللہ نے قدرتی وسائل کی تقسیم کرتے وقت بڑی ہی سخاوت کا مظاہرہ کیا ہے۔جتنے قدرتی وسائل اللہ نے پاکستان کو نوازے ہیں اتنے دنیا بھر میں کہیں نہیں ہیں۔مگر غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ قدرت اسی خطے پر جسے دنیا پاکستان کہتی ہے اور جو ہر طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے کیوں اتنی مہربان ہے۔قدرتی وسائل کروڑں برس کی مشقت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔وقت نے کروڑوں برس اس خطے پر محنت کی اور جب یہ خطہ کروڑ ہا کروڑ سال کی کڑی محنت کے بعد وسائل سے مالامال ہو گیا، اللہ نے اس خطے پر پاکستان قائم کر دیا۔ یہ محض اتفاق تو نہیں ہو سکتا کہ زمینی محلِ وقوع بھی اللہ نے اس خطے کو وہ دیا کہ پورے ایشیاء کی سلامتی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اللہ نے وسائل میں بھی رحمت فرمائی ۔اللہ نے سمندری حیثیت بھی امتیاز دیا۔کیا یہ سارے اتفاقات پاکستان کے ساتھ ہی ہونے تھے.؟؟؟؟
نہیں یہ اتفاقات نہیں ہیں۔ یہ پاکستان خدا کی اس پلاننگ کا حصہ ہے جو عیسیٰ ؑ و مہدیؑ کی سوچ اور تحریک کی مرکزی قرارگاہ بنے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی صورت میں اللہ نے ہمیں جو کچھ عطا کیا ہے ہم خود کو اس کے اہل بنائیں اور ثابت کریں کہ ہم واقعی پاکستان میں رہنے کے قابل ہیں۔