لبنان اور مصر کے درمیان واقع علاقہ مئی 1948ء میں قیامِ اسرائیل کے اعلان سے قبل فلسطین کہلاتا تھا جس کا دارُالحکومت بیتُ المقدس تھا۔ یہاں مسلمانوں کا قبلہ اوّل موجود ہے اور یہی شہر یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک بھی مقدس ہے۔ 1967ء میں اسرائیل نے اس شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔
محمود درویش نے اسی ارضِ فلسطین کا دکھ اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ انھیں عصرِ حاضر کے عربی ادب کا نمائندہ شاعر کہا جاتا ہے۔ تتلی کا بوجھ ان کے ایک شعری مجموعے کا عنوان تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ یہ ایک استعارہ ہے جو انھوں ارضِ فلسطین کے لیے برتا۔
ناقدین کے نزدیک وہ بیسویں صدی کا ایک معتبر نام ہیں جن کی نظموں کا گویا ہر مصرع اپنی سرزمین کا دکھ اور اپنے لوگوں کا کرب بیان کرتا ہے۔ وہ 1941ء میں شمالی اسرائیل کے علاقے گلیلی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصّہ فلسطین سے دور گزرا جس کا انھیں بہت ملال رہا۔
محمود درویش اپنے سیاسی نظریات اور ہر معاملے میں اپنے مخصوص نکتہ نظر کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے۔
اس شاعر کے 30 مجموعہ ہائے کلام منظرِ عام پر آئے جن میں فلسطین پر اسرائیلی قبضے اور ظلم و بربریت کے خلاف محمود درویش نے فلسطینیوں کے جذبات اور احساسات کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ ان شعری مجموعوں کے نام ہی سے عیاں ہے کہ ان کے دل میں مادرِ گیتی کا غم کس شدّت اور انتہا پر ہے۔ انھوں نے بے بال و پر پرندے، انجامِ شب، بندوق کی روشنی میں لکھنا، گلیلی میں پرندے مر رہے ہیں، دور کی خزاں میں اترنے والی ہلکی بارش، اجنبیوں کا بستر اور وہ ایک جنت تھی کے نام سے مجموعے شایع کروائے تھے۔
بے وطنی کا کرب تمام عمر اُن کے ساتھ رہا۔ وہ امریکا میں مقیم تھے جہاں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ 19 سال کی عمر میں اپنا پہلا مجموعہ اسرائیلی شہر حیفہ سے شایع کروانے کے بعد وہ لبنان چلے گئے اور پھر روس پہنچے اور وہاں بھی دل نہ لگا تو مصر میں سکونت اختیار کرلی۔ محمود درویش انگریزی، فرانسیسی اور عبرانی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔
انھوں نے کئی ادبی اعزازات اپنے نام کیے جب کہ ان کے کلام کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اردو زبان میں بھی ان کی نظموں کا ترجمہ ہوا اور محمود درویش کو علمی و ادبی حلقوں میں پذیرائی ملی۔