پاکستانی قوم اور اِس قوم کے دل کی آواز پاکستانی میڈیا اور کِسی مسئلے پر اکٹھی ہو نہ ہو، ہندوستانی اداکار اوم پوری کے پیار میں یک زبان نظر آتی ہے۔
جب سے اوم پوری نے ایک انڈین چینل پر امن کے حق میں بات کی ہے، ہندوستان کے 22 کروڑ مسلمانوں کا ذِکر کیا ہے اور جیسا کہ توقع تھی پورے ہندوستان کے محب وطن لوگوں سے گالیاں کھائیں ہیں وہ پاکستان کے ہیرو بن گئے ہیں۔ کوئی اُن کی سیاسی بصیرت کو سلام پیش کر رہا ہے کوئی ہندوستان کے جابر میڈیا کے سامنے کلمہ حق کہنے پر اُن کے حوصلے کی داد دے رہا ہے۔ کوئی اپنے گھر کے دروازے کھولے اُنھیں اپنے خاندان کا فرد بنانے پر تیار ہے۔ کِسی سیاسی مبصر نے فرط جذبات میں اوم پوری کو اپنے زمانے کا حسین قرار دے دیا ہے۔
تھوڑی دیر کے لیے یہ بھول جائیں کہ ایک ہندو اداکار ایسے وقت میں ہمارا ہیرو بنا ہے جب ایک پاکستانی مسیحی نوجوان فیس بُک پر خانہ کعبہ کی تصویر پر لائک کا بٹن دبانے کے جرم میں جان بچاتا پھر رہا ہے۔ جہاں ایک سہمی ہوئی ہندو آبادی کو ہر دوسرے دِن ہمیں یاد کرانا پڑتا ہے کہ وہ ہم سے بھی پرانے پاکستانی ہیں۔ لیکن کیا ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ پوری قوم یک زبان ہو کر ایک ایسے شخص کے گُن کیوں گا رہی ہے جِس نے اپنی حکومت اور میڈیا کے بھڑکاتے ہوئے جنگی جنون کو چیلنج کیا ہے ہم شاید یہ نعرہ لگانے میں حق بجانب ہیں
لیکن کیا ہم کبھی یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہماری صفوں میں سے نکل کر کوئی صنم خانے کے دروازے پر پہرہ دینے کی بات کرے تو اُس کا حشر کیا ہوتا ہے ؟
اگر کبھی کِسی بزرگ سے تقسیم ہندوستان کے فسادات کے قصے سُنیں تو آپ کو ایک بات بار بار سُنائی دے گی ایک جتھہ ہے جو ہندوؤں مسلمانوں یا سکھوں کی کِسی آبادی یا قافلے کا جلاؤ گھیراؤ کرنا چاہتا ہے اُس کے راستے میں کوئی اُس کے راستے میں کوئی سر پھرا اکیلی برچھی لے کر یا دامن پھیلا کر اُنہیں روکنے کی کوشش کرتا ہے ایک بپھرے ہوئے ہجوم کے سامنے یہ شخص (یا کبھی عورت) ہندو بھی تھا، مسلمان بھی اور سکھ بھی۔ اکثر ہجوم اِس کی لاش کے اوپر سے گزر جاتا تھا۔ بعض معجزاتی کہانیوں میں ایسے کرداروں نے بستیاں بچائیں، قافلے منزلوں تک پہنچائے۔
آج جب کہ ہندوستانی اور پاکستانی قوم ایسے جتھوں میں تبدیل ہو چکی ہے کہ اُن کو علیحدہ رکھنے کے لیے خادردار تاریں اور خندقیں ضروری ہیں ایسے لوگوں کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے اور سپلائی کم ہو گئی ہے جو بپھرے ہوئے ہجوم کے سامنے کھڑے ہو کر اُنھیں بتا سکے کہ جِس بستی کو جلانے چلے ہو اُس میں تمہارے بزرگوں کی قبریں بھی ہیں۔
وُہ کمزور دِل پاکستانی جو ہر سال واہگہ پہ شمعیں جلاتے رہے ہم اُنھیں موم بتی مافیا اور را کے پروردہ کہتے ہیں۔ اگر ہندوستان میں کوئی ایسی حرکت کرے تو ہمیں اپنے بچھڑا ہوا بھائی یا بہن لگتا ہے۔
شاید ہم مِن الحیث القوم ایسی جذباتی تنہائی کا شکار ہیں (حالانکہ روز رات کو سونے سے پہلے اپنے آپ کو چین کے پیار کی لوری سُناتے ہیں) کہ اگر کوئی بھولے سے یہ بھی کہہ دے کہ سارے پاکستانی دہشت گرد نہیں ہیں تو ہمارا دِل بھر آتا ہے۔
پاکستان میں غالب اور مودودی کے بعد جو ادیب سب سے زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔ وہ ہیں اروندھتی رائے اور دوسرا نوم چومسکی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ دونوں اپنے اپنے ملک کی پالیسیوں پر بڑی بہادری سے تنقید کرتے ہیں۔ ایسے یار لوگ بھی موجود ہیں جو مِس رائے کی تحریروں پر بھی عش عش کرتے ہیں اور حافظ سعید کی طویل العمری کی بھی دعائیں مانگتے ہیں۔ نوم چومسکی کو بھی پیرومرُشد مانتے ہیں اور پاکستان کی شیعہ کُش تحریروں کے بھی حامی ہیں۔ اگر کوئی ہمارے دشمن کی صفوں میں سے نکل کر اپنے ملک، اپنی قوم، اپنے میڈیا کے خلاف بولے تو ہمارا ہیرو۔ اگر کوئی ہمارا اپنا ادب سے بھی سوال کرے کہ کہیں ہم ایک خونخوار ہجوم تو نہیں بنتے جا رہے تو وہ یا کافر یا غدار یا کیسی ایسے زندان خانے میں جہاں سے کِسی کو کِسی کی خبر نہیں آتی۔
اوم پوری نے بھی وہی کیا جو ایک بھنایا ہوا باضمیر شخص اُس وقت کرتا ہے جب اُس کو وطن فروشی کا طعنہ دیا جا رہا ہو ذرا سوچیں اگر کوئی پاکستانی اوم پوری ٹی وی پر آ کر یہ کہے کہ جو پاکستانی فوجی جوان کشمیر کی، یا افغانستان کی، یا پشاور کی، یا کوئٹہ کی یا کراچی کی جنگ میں مارا گیا میں نے تو اُسے نہیں کہا تھا کہ وردی پہنو اور اِس جنگ میں جاؤ۔
ذرا سوچیں کہ کوئی پاکستانی ٹی وی پر بیٹھ کر یہ کہے اور اِس کے بعد کتنے دِن زندہ رہ سکے۔ تازہ ترین اطلاعات کہ مطابق انھوں نے اپنے کہنے پر معذرت کر لی ہے۔ مودی کے بھارت اور جناح کے پاکستان میں کِسی بھی باضمیر شخص کو زبان کھولنے سے پہلے ہی معذرت کر لینی چاہیے۔
اب ہمارے اوم پوری کے عشق میں مبتلا بھائیوں اور بہنوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ہی صفوں میں حسین تلاش کریں اور جب تک نہیں ملتا کم از کم یہ کریں کہ جب حسینی مارے جائیں تو مرنے والوں کو شہید کہیں نہ کہیں اُن کے پورے نام بتا دیا کریں۔