تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
پاکستان میں انتخابات کوئی بھی ہوں، عام پارلیمانی انتخابات ہوں، کسی حلقے کا ضمنی انتخاب ہو، بلدیاتی انتخاب ہوں، لوگ نتیجے کا انتظار بڑی بے چینی سے کرتے ہیں۔ ادھر کسی پولنگ سٹیشن پر ووٹ ڈالنے کا وقت ختم ہوا، گنتی شروع ہوئی۔ گھنٹے سوا گھنٹے میں ووٹ گن لئے گئے اور موقع پر ہی نتائج کی دستخط شدہ پرچی پولنگ ایجنٹوں کے سپرد کر دی گئی، پولنگ سٹیشن پر جتنے ووٹ پول ہوئے، اس کے نتیجے کا اعلان بھی تھوڑی ہی دیر میں کسی نہ کسی پرائیویٹ چینل سے ہو جاتا ہے، کیونکہ تقریباً تمام چینلوں کے نمائندے الیکشن کو اس طرح کور کر رہے ہوتے ہیں کہ جتنے پولنگ سٹیشنوں کا نتیجہ سامنے آگیا، اس کا اعلان کر دیا گیا۔ مثال کے طور پر اگر کسی حلقے کے 270 پولنگ سٹیشن ہیں اور محض آٹھ دس یا اس سے بھی کم کا نتیجہ موصول ہوا ہے تو اس کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ امیدواروں کے حامی اور مخالف ووٹر بھی ٹی وی سکرینوں پر بے چینی سے نتیجے کے منتظر ہوتے ہیں۔ بعض نتائج جب سامنے آتے ہیں تو ووٹروں کا رجحان بھی نظر آنے لگتا ہے، اگر کسی امیدوار کی دوسروں پر برتری بہت زیادہ ہو تو پھر یہ شروع سے آخر تک بھی قائم رہتی ہے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ نصف سے بھی کم ووٹوں کی یا حلقوں کی گنتی ہو پاتی ہے لیکن رجحان سے جو اندازے لگائے جاتے ہیں وہی آخر دم تک قائم رہتے ہیں۔ بہت کم صورتوں میں ایسا ہوتا ہے کہ جو رجحان چالیس پچاس فیصد نتائج آنے پر سامنے آگیا ہو، وہ بعد میں بدل جائے۔ نتیجہ اس وقت بدل جاتا ہے جب برتری بہت تھوڑی ہو، اور ”کانٹے دار“ مقابلہ محاورتاً نہیں، واقعتا ہو رہا ہو۔
پاکستان میں قومی اسمبلی کے پہلے عام انتخابات 1970ءمیں ہوئے تھے۔ مشرقی پاکستان سمیت ملک کے پانچ صوبے تھے۔ چار صوبے تو وہ تھے جو آج بھی پاکستان کہلاتے ہیں، مشرقی پاکستان ایک صوبہ تھا، پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کا کوئی وجود نہ تھا، صرف ایک پی ٹی وی تھا جہاں سے طویل الیکشن ٹرانسمیشن جاری رکھی گئی اور یہ پروگرام مکمل نتیجے کے بعد ختم ہوا۔ نتیجہ اس طرح نشر ہوتا تھا کہ فلاں حلقے میں کل پولنگ سٹیشن اتنے ہیں، جن میں پولنگ سٹیشنوں کا نتیجہ موصول ہوچکا ہے۔ اس کے بعد نتیجہ بتایا جاتا، اس کے بعد ساتھ ہی ساتھ ہر پولنگ سٹیشن کے نتائج اپ ڈیٹ کر دئے جاتے۔ اس وقت قومی اسمبلی کے الیکشن ایک دن ہوتے تھے اور تین دن کے بعد صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن ہوجاتا تھا۔ گنتی کا طریقہ وہی تھا جو اب تک رائج ہے۔ البتہ فرق یہ پڑا ہے کہ اب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ایک ہی دن ہوتے ہیں۔ نتائج نشر ہونے کی روایت بھی برقرار ہے۔ البتہ پرائیویٹ ٹی وی چینل آنے سے نتائج نشر کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوتی ہے، ہر چینل کی خواہش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے نتیجہ کا اعلان وہ کرے، چاہے چھوٹے سے چھوٹے حلقے کے چھوٹے سے چھوٹے پولنگ سٹیشن کا ہو۔ مقابلے اور مسابقت کی اس دوڑ میں بظاہر تو کوئی حرج بھی نہیں، اگر نتائج صحیح طور پر نشر ہوں اور محض دوسرے حریفوں کو نیچا دکھانے کے لئے کسی جگہ کا فرضی نتیجہ نشر نہ کر دیا جائے جیسا حال ہی میں لاہور میں ایک حلقہ این اے 122 کے انتخاب کے موقع پر مشاہدے میں آیا کہ ایک چینل نے پولنگ کا وقت ختم ہوتے ہی دوتین منٹ کے اندر اندر ایک پولنگ سٹیشن کا نتیجہ جاری کر دیا اور ساتھ ہی اپنے ناظرین کو یہ باور کرانا بھی ضروری سمجھا کہ وہ پہلا چینل ہے جس نے کسی بھی پولنگ سٹیشن کا نتیجہ سنایا۔ ہم نے یہ نتیجہ سنا تو ٹھٹھک کر رہ گئے کہ دو تین منٹ میں تو تہہ شدہ بیلٹ پیپر ہی سیدھے نہیں ہو پاتے، گنتی کیسے ہوگئی؟ پھر ہم نے سوچا کہ ممکن ہے پولنگ ایجنٹ تیز طرار ہوں اور انہوں نے ”ہاتھ کے ہاتھ“ گنتی شروع کر دی ہو، لیکن ہماری یہ خوش فہمی اس وقت دور ہوگئی جب کئی دن بعد ایک باخبر رپورٹر نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ اس چینل نے ”فرضی نتیجہ“ سنا دیا تھا تاکہ وہ مقابلے کی دوڑ جیت کر بازی لے جاسکے، اب پتہ نہیں بازی جیتی گئی یا ہاری گئی، لیکن یہ نتیجہ اصلی نہیں جعلی تھا۔
غالباً اس تجربے کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے ٹی وی چینلوں کو پابند کر دیا تھا کہ وہ ”غیر حتمی“ غیر سرکاری نتیجہ اپنے طور پر ٹیلی کاسٹ نہیں کریں گے اور صرف وہی نتیجہ بتائیں گے جو انہیں مجاز افسر کی طرف سے مہیا کیا جائیگا۔ یہ حکم کئی روز پہلے الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کیا گیا تھا، جس کے خلاف پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے 26 اکتوبر کو میڈیا پر بلدیاتی انتخابات کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج نشر کرنے پر پابندی عائد کی گئی، جو خلاف آئین ہے۔ عدالت سے استدعا کی گئی کہ نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لوگوں تک انتخابات کے مصدقہ نتائج پہنچانے کے لئے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد میڈیا کو بلدیاتی انتخابات کے غیر حتمی نتائج نشر کرنے کی مشروط اجازت دے دی۔ عدالت نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ میڈیا پولنگ کا عمل ختم ہونے کے ایک گھنٹے بعد نتائج جاری کرے گا اور ہر نتیجے کے ساتھ ”غیر مصدقہ نتیجہ“ کا لفظ واضح طور پر لکھے گا۔ مسٹر جسٹس محمد فرخ عرفان خان نے ریمارکس دئیے کہ میڈیا کی آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ معلومات تک رسائی عوام کا بنیادی حق ہے، عوام کو آئینی حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس عبوری حکم کے بعد میڈیا کو پولنگ کا وقت ختم ہونے کے ایک گھنٹے کے بعد ”غیر مصدقہ نتائج“ نشر کرنے کی اجازت ہوگی۔ جس میں یہ بھی واضح کیا جائے گا کہ نتائج تبدیل بھی ہوسکتے ہیں۔ آج جو بلدیاتی انتخابات پنجاب اور سندھ میں ہو رہے ہیں ان میں پولنگ کا وقت ساڑھے پانچ بجے ختم ہوگا۔ اس لئے جلدی سے جلدی بھی جو نتیجہ سب سے پہلے سامنے آئے گا وہ ساڑھے چھ بجے یا اس کے بعد ہی آسکے گا۔